جب سے آنکھ کھلی اور اس پاک دھرتی کے مدرسوں، سکولوں کالجوں میں وقت گزرا۔ ہمیشہ ایک موضوع کو ہم نے اسلامیات اور معاشرتی علوم میں متحرک پایا اور وہ موضوع ہے ہندومت کی چار ذاتوں کا یعنی برہمن، کھشتری ، ویش اور شودر۔
برہمن وہ تھے جن کے ذمے مذہبی امور تھے اور وہ انتہائی اعٰلی ذات سمجھے جاتے تھے ان کی عظمت عام انسانوں سے اس قدر زیادہ تھی کہ اگر ان کو وید پڑھتے ہوئے کوئی شودر یا ویش سن لیتا تو اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا۔دونوں بڑی ذاتوں کا دونوں نچلی ذاتوں پہ یہ حق تھا کہ جب بھی کسی کی چاہتے جان لے سکتے تھے۔
کھشتری کا کام ملک کا دفاعی کام سر انجام دینا تھا یعنی وہ طاقت کی علامت تھے۔
ویش کا کام کھیتی باڑی کرنا تھا یعنی ملکی زراعت سنمبھالتے تھے۔جبکہ شودر کا کام بس چھوٹے موٹے کام کرنا اور باقی تمام ذاتوں کا حکم بجا لانا تھا۔
یہ تو تھا ہندو معاشرہ جس میں بےشمار مسائل اور ظلم تھے لیکن جب میں نے اپنے معاشرے کو پڑھا تو میں حیران رہ گیا اور ایسے محسوس ہوا جیسے میرا بھی ایسے ہی کسی معاشرے سے تعلق ہے۔ آپ ضرور سوچ رہے ہونگے کہ یہ اسلامی جمہوریہ کے بارے میں ایسے کیسے کہہ سکتا ہے؟ آئیے میں اپنی بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
تو میں نے جیسے عرض کی کہ پہلی ذات تھی برہمن، یہ تمام وڈیرے اور جاگیردار مجھے اس سانچے میں خوب ڈھلتے ہوئے محسوس ہوئے کیوں کہ ان کے اپنے بچے اور یہ خود یورپ اور امریکہ کی اعٰلی یونیورسٹیوں میں “اعٰلی” تعلیم کے حصول میں کامیاب رہتے ہیں لیکن اپنے علاقے میں پرائمری سکول تک نہیں کھلنے دیتے۔ تعلیم کی اہمیت جاننے کے باوجود یہ ملک میں ایک جیسا تعلیمی نصاب نہیں رائج نہیں کرنے دیتے اور اگر کوئی ان جیسی تعلیم حاصل کر کے ملک کے لیئے کام کرنے کی کوشش کرے تو اس کی قسمت کے کانوں میں “پگھلا ہوا سیسہ” ڈال دیتے ہیں۔
میں نے مزید غور کیا تو مجھے وہ تمام جعلی پیر،فقیر اور نام نہاد علماء بھی اسی کلاس میں شامل نظر آئے۔ قرآن کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ انسان کو کہتا ہے آو مجھے تمھارے لئے بہت آسان کر دیا گیا ہے لیکن جب ایک مسلمان اس کو سمجھ کر ان تمام اداکاروں کے خلاف “کلمئہ حق” بلند کرے تو نتیجہ آپ کو میں بتا چکا۔
دوسری ذات تھی کھشتری، طاقت کی علامت ، شاید اسی لئے اس کے درودیوار، سڑکیں، بجلی، پانی، معیشت،تعلیم یعنی ہر
لحاظ سے طاقتور۔اس کی طاقت کا اعتراف تو سولہ سالہ بچے نے لال مسجد کے ملبے تلے دبتے وقت بھی کیا۔ ان کی طاقت کا اعتراف تو دن کے اُجالے میں سر عام اُٹھائے جانے والے بیٹوں کی ماؤں نے بھی کیا۔اِس قوم کی اُس بیٹی کو سنائے گئے ناحق
فیصلے نے بھی کیا۔ مُحسن پاکستان کی آنکھوں میں قید کے دوران پلکوں پہ آئے آنسو ؤں نے بھی کیا۔
تیسری ذات میں آئے ویش، یہ “مڈل کلاس” کسان، محنت کش معصوم اور سادہ سی ذات جس کا کام گندم ، دالیں ، سبزیاں اور گنا اُگانا اور بالآخر بڑی ذاتوں کے ذخیرہ اندوذوں کے اُوپر لُٹا دینا بدلے میں ان ذخیرہ اندوزوں کا انھی لوگوں کو اپنی ذات کی طرح اعٰلی داموں بیچنا یعنی ان سے نوالا چھین لینا۔ اُن کا معاشی استحصال کرکے خودکشی پہ مجبور کردینا جیسے برہمن کا شودر کی جان لینے کو حق کہنا۔
چوتھی اور آخری ذات شودر، اس ذات کا کردار ہمارا مزدور طبقہ نبھاتا ہے جو چھوٹے موٹے محنت بھرے کاموں میں مصروف رہتا ہے اور بلاشبہ جن کو ہمارے اسلامی جمہوریہ میں اچھوت سمجھا جاتا ہے اور انہیں ہر طرح سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اور ان کی
زندگی کا مقصد “اُونچی ذاتوں” کی خدمت بجا لانا ہے۔
برہمن وہاں بھی چند فیصد تھے، جاگیردار اور وڈیرے یہاں بھی چند فیصد ہیں ۔
تم پاکستانی عوام آج بھی ویش اور شودر سے ذیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہو ان کے سامنے اور تم آج بھی ویش اور شودر کی طرح خوف سے آواز نہیں اُٹھاتی ہو۔ تُم لوگوں پہ تکلیف آئے تو رو لیتے ہو بچ جاؤ توتکلیف کا خوف کھاتے ہو ۔ لیکن آواز نہیں اُٹھاتے ہو۔ کبوتر جب شکاری کے جال میں پھنس گئے تو مل کے جال کو اُڑا لے گئے۔ آو تم بھی ان برہمنوں اور کھشتریوں کے بُنے ہوئے ظالمانہ جال کو لے اُڑو۔آو متحد ہوجائو اور ان جاگیرداروں وڈیروں کو جیلوں میں ڈال دو یا ان کو ملک سے بھگا دو۔ آج بھی موقع ہے دل پہ ہاتھ رکھو اللہ اللہ کہو اور نکل پڑھو گھر سے اس ظلم کے خلاف۔ یاد رکھو آج اگر نہ متحد ہوئے تو یہ اس پوری قوم کو “ستی” کی آگ” میں جلا ڈالیں گے اور تمھاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
No comments:
Post a Comment