پاکستان کے ساٹھ سال اور سندھ -- حصہ دوم _سهيل سانگي
پاکستان کے ساٹھ سال اور سندھ -- حصہ دوم
by Jbr Jamali on Friday, 17 July 2009 at 09:51
سندھ کی سیاسی تحریکیں
گزشتہ ساٹھ سال کے دوران سندھ میں کئی تحریکیں اٹھیں۔ لیکن ان میں سے تین ایسی تھیں جنہوں نے اسلام آباد کے ایوانوں کو ہلا دیا۔ وہ تحریکیں تھیں 1968 اور 1969 کی ون یونٹ مخالف تحریک، 1983 کی ایم آر ڈی تحریک، اور 1986 کی تحریک۔
ان تینوں تحریکوں کی شدت، مقاصد، کردار وغیرہ الگ الگ تھے لیکن ان تحریکوں کے علاوہ طلباء، مزدوروں اور کسانوں نے بھی کئی تحریکیں چلائیں۔
آٹھ جنوری کی طلبہ تحریک
1953 میں ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن کی اپیل پر کراچی کے طلباء نے احتجاج کیا۔ پولیس نے زبردست لاٹھی چارج کیا اور بڑے پیمانے پرگرفتاریاں کیں۔ دوسرے دن اس سے بھی بڑا جلوس نکالا گیا۔ جس میں عام شہری بھی شامل ہوگئے۔ پولیس نے گولیاں چلائیں۔ ستائیس افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔
سندھ کے قومی حقوق کی تحریک
صوبائی اسمبلی توڑنے کے بعد ضمنی انتخابات ہوئے۔ لبرل رہنما عبدالستار پیرزادہ نے حکومت بنانے کے لیے کراچی کی سندھ کو واپسی، مرکزی اداروں میں سندھیوں سے امتیازی سلوک کا خاتمہ، فوجی افسروں کو سندھ میں زمینیں دینے پر ممانعت جیسے مطالبات رکھے۔ ان دنوں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نواب افتخار حسین ممدوٹ کو سندھ کا گورنر بنایاگیا جنہوں نے ستار پیرزادہ کی حکومت ختم کرکے ایوب کھوڑو کو بحال کردیا۔
بعد میں ایوب کھوڑو، پیر علی محمد راشدی اور ممدوٹ کے ذریعے ون یونٹ نافذ کردیا گیا۔ ون یونٹ کا قیام ویسے تو بنگال کے ساتھ برابری کے لیے تھا لیکن سندھ کو بھی اس نئے ڈھانچے میں بڑا نقصان ہوا۔
ایک طرف سندھ کے لوگ اپنے معاشی وسائل اور جائیداد ک مسائل محسوس کر رہے تھے تو دوسری طرف انہیں زبان اور ثقافت خطرے میں دکھائی دینے لگی تھی۔ شاید اسی لیے سندھ کی قومی تحریک ایک نکاتی مطالبے پر مرکوز ہوگئی یعنی ون یونٹ کا خاتمہ۔
حیدربخش جتوئی، جی ایم سید اور شیخ عبدالمجید سندھی نے اینٹی ون یونٹ فرنٹ قائم کیا جس کی تائید عوامی لیگ اور آزاد پاکستان پارٹی نے بھی کی۔
اکتوبر سن 58 میں ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کردیا جس کی تیاری اگرچہ خاصے عرصے سے تھی لیکن سندھ کے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مارشل لاء ون یونٹ کو بچانے کے لیے لگایا گیا تھا۔
ہاری تحریک
پچاس کی دہائی کے آغاز پر سندھ کے ہاریوں نے حیدر بخش جتوئی کی قیادت میں سندھ اسمبلی کا گھیراؤ کیا اور سندھ ٹیننسی ایکٹ منظور کرایا۔
ہاریوں کے حقوق کے لیے بننے والا یہ پہلا قانون تھا۔ اسی کے چند برس بعد ہاریوں نے سندھ میں بٹئی تحریک چلائی جس کا مقصد یہ تھا کہ زرعی پیداوار کے نصف کا مالک ہاری ہوگا۔ یہ تحریک خاصے علاقوں میں بڑے زور وشور سے چلی۔ بعض مقامات پر ہاریوں نے اپنا حصہ لینے کے لیےباضابطہ مزاحمت بھی کی۔
جیئے سندھ تحریک
ان تمام مسلسل واقعات کے بعد سندھ میں پہلے بے قاعدہ اور بعد میں باقاعدہ ایک سوچ، ایک تحریک نے جنم لیا جسے بعد میں جیئے سندھ تحریک کا نام دیاگیا۔ ابتدائی طور پر اس تحریک کو روایتی زمینداروں اور درمیانے طبقے کی حمایت حاصل تھی۔ اس تحریک کے روحِ رواں جی ایم سید تھے تاہم اس کی بنیادوں میں حیدربخش جتوئی، قاضی فیض محمد، شیخ عبدالمجید سندھی، ہاشم گزدر جیسے کئی رہنما اور کئی گمنام کارکن اور رہنما شامل تھے جن کا اب تاریخ میں کوئی باقاعدہ ذکر نہیں ملتا۔
آگے چل کر جب جی ایم سید نے اسے باقاعدہ تنظیمی شکل دی تو جیئے سندھ تحریک پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ اس کا بھارتی حکومت سے تعلقات ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ تحریک ثقافتی سطح پر رہی اور سیاسی مقاصد کو آگے نہ لا سکی۔
ایوب خان کا سبز انقلاب اور زرعی اصلاحات سندھ کی دیہی آبادی کا کوئی زیادہ بھلا نہ کر سکے۔ البتہ سبز انقلاب کا فائدہ زمینداروں کو ضرور ہوا۔ عجیب بات ہے کہ اس سبز انقلاب سے فائدہ اٹھانے والے زمیندار ہی بعد میں ایوب کے مخالف ہوکر کھڑے ہوگئے۔
اسی اثناء میں ایک زمیندار اور پُرکشش قیادت رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو میدان میں آگئے۔ انہوں نے سندھ کی بے چینی کو استعمال کر کے مقبولیت حاصل کر لی۔ پیپلز پارٹی کا کردار دوہرا رہا۔ وہ صوبائی سطح پر سندھ کے مسائل اور ملکی سطح پر نچلے طبقے کے روٹی، کپڑا اور مکان جیسے مسائل اٹھا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جو سندھ کو قابو میں رکھ سکتی ہے۔
ایوب خان اور ون یونٹ کے خلاف تحریک
ون یونٹ قیام کے بعد سندھ میں چھوٹی بڑی تحریکیں چلتی رہیں لیکن باقاعدہ تحریک کی شکل اس وقت بنی جب مغربی پاکستان کے گورنر کالا باغ نے سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا ایک کمشنر کے کہنے پر تبادلہ کیا۔
چار مارچ 1967 کو سندھ یونیورسٹی کے طلباء جب کیمپس سے بسوں میں سوار ہو کر حیدر آباد شہر میں مظاہرہ کرنے آ رہے تھے تو شہر کے باہر ہی روک کر لاٹھی چارج کیا گیا اور سینکڑوں کی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں۔
اس واقعے نے سندھ میں سیاسی سرگرمی کو نئی جِلا بخشی اور یہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کے بعد اس تحریک میں سندھ کے ادیب، دانشور، اور عام لوگ بھی شامل ہوگئے۔
1968 اور 1969 کی تحریک زیادہ شدید تھی جس نے نہ صرف سندھ کے اندر بلکہ پورے ملک میں ایک انقلابی صورتحال پیدا کردی تھی۔ اس تحریک میں اگرچہ قوم پرستی کا رنگ شامل تھا لیکن اپنے جوہر میں یہ تحریک طبقاتی اور جمہوری تھی۔
یہ واحد موقع تھا جب سندھ کی دیہی اور شہری آبادی متحد تھی اور تمام لسانی، قومی، مذہبی تعصبات سے بالاتر تھی۔ شہری علاقوں میں مزدور تحریک چلا رہے تھے اور دیہی علاقوں میں کسان اور درمیانہ طبقہ بغاوت کیے ہوئے تھا۔
اس دور میں قوم پرستوں کے تمام تر کام کے باوجود بھٹو نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور جب ستّر کے انتخابات ہوئے تو لوگ پیپلز پارٹی اور بھٹو کے عشق میں اس حد تک چلے گئے کہ ’ووٹ پی پی کا اور سر مرشد کا‘۔
تحریک کے نتیجے میں جنرل ایوب کو جانا پڑا لیکن وہ اقتدار اپنے ساتھی جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر گئے۔ ستّر کے انتخابات سے پہلے یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑنے اور صوبے بحال کرنے کا اعلان کیا تو کراچی سندھ کو واپس مل گیا۔ اس سے سندھی آبادی کو خاصی تشفی ہوئی۔
عام انتخابات کا اعلان ہوا تو ایک مرتبہ پھر سندھ کے لوگوں نےتحریک کے تسلسل کو جاری رکھا اور مطالبہ کیا کہ انتخابی فہرستیں سندھی میں بنائی جائیں۔ اس کے لیے بھوک ہڑتال کا سلسلہ شروع ہوا جو حیدرآباد شہر کے مشہور حیدر چوک پر کئی دنوں تک جاری رہا۔ اس موقع پر ایک بار پھر سندھی مہاجر فسادات کرانے کی کوشش کی گئی۔
جب صدر جنرل یحییٰ خان نے انتخابی نتائج ماننے سے انکار کیا تو بھٹو نے بطور مغربی پاکستان کے لیڈر کے یحییٰ خان کا ساتھ دیا اور بنگلہ دیش میں سِول لڑائی شروع ہوگئی۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران سندھ نے اکّا دکّا اظہار کیا تاہم کوئی بھرپور اظہار سامنے نہیں آیا۔
1971 میں جب پی پی انقلاب کی راہ چھوڑ کر اصلاحات کی طرف آئی تو یہ تحریک دم توڑ گئی اور معاملات لسانی اور قوم پرستی کی بنیادوں پر تقسیم ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کی اصلاحات نے قومی سوال کو حل کرنے کی بجائے اس کو مزید الجھایا اور شدید کیا۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد مہاجروں کی نئی کھیپ جن کو عرف عام میں بہاری کہا جاتا ہے سندھ میں آنا شروع ہوگئی۔ یہ کھیپ بھی لاکھوں میں تھی۔
سندھ زبان کا بل اور کوٹہ سسٹم کا نفاذ سندھ کے دیہی آبادی کا تو کوئی بھلا نہیں کر پایا لیکناس سے سندھ کی شہری آبادی لسانی بنیادوں پر تقسیم ہوگئی۔ اس بات نے مہاجر، پٹھان اور پنجابی آبادیوں میں تنگ نظر چھوٹے مقامی لیڈروں کو جنم دیا۔ اس زمانے میں سندھی مہاجر فسادات ہوئے جس میں فریقین کے درجنوں افراد ہلاک ہوگئے۔ یہیں سیاست میں تشدد کا عنصر آنا شروع ہوگیا۔
یہ عجیب بات ہے کہ سندھ میں لسانی فسادات پیپلز پارٹی کے ہی دور میں ہوئے۔ یہ فسادات ایک طرح سے مہاجر آبادی کی ناراضگی کا اظہار تھے جو اقتدار سے محروم ہو چکی تھی۔
بعد میں ان کے اطمینان کے لیے سندھ میں اردو سندھی دونوں کو سرکاری زبان بنایا گیا اور اسی کے ساتھ سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان کی بیوی بیگم لیاقت علی خان کو سندھ میں گورنرمقرر کیا گیا اور ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد سندھیوں کے تسلّط کا خوف محسوس کرنے والے مہاجروں کے اطمینان کے لیے غیر تحریری طور پر یہ معاہدہ طے ہوا کہ سندھ کا گورنر سندھی نہیں ہوگا۔
لہٰذا آج تک اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ مہاجروں کے اس بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لیے سندھی قوم پرست طلباء نے اردو بولنے والے لیکن پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر بدیع الحسن زیدی کو کراچی سے حیدر آباد آتے ہوئے جام شورو کے پاس اغواء کر لیا۔ انہیں کئی دن بعد مذاکرات کے ذریعے بازیاب کرایا گیا۔
پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے سے سندھیوں کو اربنائزیشن (شہری) دھارے میں شامل ہونے کے لئے کچھ جگہ ملی۔
ایم آرڈی تحریک
1979 میں بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے اور 1979 میں پھانسی نے سندھ میں قومی تحریک کو بے انتہا طاقت دی۔ اس کی علامت بھٹو تھا جو سندھ سے تعلق رکھتا تھا۔
ضیاء کا پس منظر اور اس کے کام سندھ میں اس کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے کافی تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک جو ملک گیر تھی لیکن اس کا عملی اظہار کچھ اس طرح ہوا کہ سندھ میں اس نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ یہ تحریک سندھ کی تحریک کے طور پر ہی پہچانی جانے لگی۔
ضیاء نے سندھ میں جو مظالم کیے وہ کسی طور پر انگریز سامراجیوں سے کم نہ تھے جو انہوں نے برصغیر میں روا رکھے تھے۔اس بات نے سندھ میں فوجی حکومت کے خلاف ایک طاقتور تحریک کو جنم دیا۔
سرکاری اعداد وشمار یہ ہیں کہ اس دور میں 1263 لوگوں کو قتل کیا گیا اور ہزاروں کو زخمی کیا گیا۔ مظاہرے، جلوس، قید، کوڑے، پھانسیاں اور فوج کے ہاتھوں لاکھاٹ (سکرنڈ) اور میہڑ (دادو) میں مظاہرین کی ہلاکت اس تحریک کے بہت بڑے واقعات تھے۔
ایم آر ڈی تحریک کے دور میں بہادری اور شجاعت کے کئی ایک واقعات ہوئے جو اب سندھ میں لوک ادب کا حصہ بن گئے ہیں۔
یہ پہلا موقع تھا کہ سندھ کی دیہی آبادی نے فوجی آمریت کے خلاف اور اپنے حقوق کے لیے مکمل طور پر بغاوت کا اعلان کیا۔ سندھ میں شاید ہی ایسا کوئی گھر ہو جس نے اس تحریک میں حصہ نہ لیا ہو۔ اگرچہ اس کا رنگ ایک حد تک قوم پرستانہ تھا لیکن نچلی سطح پر عمومی طبقاتی تھی۔
یہ تحریک اس وجہ سے ناکام ہوئی کہ حکمران سندھ اور دیگر صوبوں کے شہروں میں لسانی بینادوں پرنفرت پھیلانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اس تحریک کے توڑ کے لیے کراچی میں ایم کیو ایم، سندھ پنجابی پشتون اتحاد اور مذہبی بنیاد پرستی کو ابھارا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب تحریک اپنی طبقاتی شکل اختیار کر رہی تھی۔
اس کے باوجود یہ تحریک جاری رہی۔ اس دور میں جب جب قومی تضادات طبقاتی تضادات کے ساتھ جڑے تو معاملہ خاصا گرم ہو گیا۔
اس تحریک اور سندھ میں ضیاء کے خلاف نفرت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں سندھ سے محمد خان جونیجو کو وزیرِ اعظم بنایا گیا لیکن آگے چل کر جنرل ضیاءالحق نے انہیں برطرف کر دیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تحریک مزید کامیاب ہو جاتی اگر ایم آر ڈی اور پیپلزپارٹی کے رہنما انقلابی یا طبقاتی مطالبات سے گریز نہ کرتے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو صوبوں اور شہری اور دیہی آبادی کے درمیان مزید بھائی چارہ ہوتا لیکن حکمران طبقہ جس میں ایم آر ڈی کے لیڈران بھی شامل تھے اس سے ڈرگئے تھے۔
انیس سو چھیاسی کی تحریک
انیس سو چھیاسی کی تحریک ضیاء کے تابوت میں آخری کیل تھی۔ اس تحریک کا بڑا واقعہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی اور ملک بھر میں نکالی گئی ریلیاں تھیں لیکن بینظیر بھٹو کا اقتدار میں آنا اور جمہوری دور کی آمد معاہدوں کی نذر ہوگئے اور حقیقی مقاصد حاصل ہی نہ ہو سکے اور نہ ہی کوئی بہت بڑی تبدیلی آ سکی۔
یہ رسمی جمہوری دور چھوٹی قومیتوں کے لیے مزید تکلیف کا باعث بنا کہ مجموعی طور پر اظہار اور تقریر و تحریر کی آزادی نے ان لوگوں میں یہ احساس مزید بڑھایا کہ وہ کتنی تکلیف میں ہیں۔ وہ اپنی عدالتوں، اپنے افسران ، ثقافت وغیرہ سے محروم ہیں۔
شہری آبادی کی تحریڪ
شہری آبادی کی تحریک
1984 میں ایم کیو ایم وجود میں آئی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس کے مقاصد میں چاہے کچھ بھی رکھا گیا ہو لیکن دراصل مہاجر اس پوزیشن کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے تھے جو انہیں پاکستان بننے کے بعد ایک عشرے تک مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور فیصلہ سازی میں حاصل تھی۔
یہ پوزیشن دراصل کراچی کے مرکزی دارالحکومت بننے اور پنجاب اور پٹھان آبادی کے بڑے پیمانے پر اس شہر میں آ کر بسنے، ون یونٹ کے بعد مغربی پاکستان کا دارالحکومت لاہور منتقل ہونے سے خاصی متاثر ہوگئی تھی۔
ایک اور نقصان اس وقت ہوا جب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوگیا۔ یوں مرکزی چیزوں پر پنجابی اور پٹھان نے نہ صرف اپنی حصہ داری بڑھا دی بلکہ باقی حصے میں سندھیوں کو بھی شراکت کرا دی تو مہاجر اپنے آپ کو تنگ محسوس کرنے لگے۔
یوں مہاجروں میں اپنی الگ سیاست کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ ایم کیو ایم کا پہلا جھگڑا پٹھانوں کے ہی ساتھ ہوا جب بشرا زیدی کیس میں دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال کیا۔
ضیاء حکومت کے غیر جماعتی انتخابات نے ملکی اور صوبائی سیاست پر زیادہ منفی اثرات ڈالے۔
پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کے چکر میں قوم پرستوں کو مراعات دینے یا خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ حکومت کا جانبدارانہ رویہ تھا جس کے جواب میں مہاجریت کو ابھار ملا۔
ایم کیو ایم کا فروغ ریاست کی سطح پر محنت کش طبقے کو نسلی، لسانی اور قوم پرستانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا تھا۔ یہ ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ والی پالیسی کا تسلسل تھا۔
افغان جنگ اور اس کی طرف پاکستان کے رویے کے نتیجے میں پندرہ لاکھ سے زیادہ افغانی سندھ میں آگئے جن کی اکثریت اب بھی کراچی میں رہ رہی ہے اور اس کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
جیئے سندھ نے مارشل لاء حکومت کی جزوی مخالفت اور حمایت والی پالیسی اختیار کی۔ ضیاء کو جی ایم سید کی عیادت کرنے جناح ہسپتال آنا پڑا اور ایم آر ڈی تحریک کے دوران سید کے آبائی گاؤں سن بھی جانا پڑا۔
ستّر اور اسّی کی دہائی میں بائیں بازو کی جماعت اور لیڈروں کی مقبولیت بڑھنا شروع ہوئی۔ اس دور میں کامریڈ جام ساقی اور رسول بخش پلیجو لیڈر کے طور پر ابھرے۔
پاکستان کی تاریخ میں سندھ سے تین وزیر عظم رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، اور بینظیر بھٹو۔ ان تینوں کو فوجی حکومت نے ہٹایا جس وجہ سے سندھ میں فوج کے خلاف نفرت بڑھی اور احساس محرومی میں اضافہ ہوا۔
دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم اور گریٹر تھل کینال کی تعمیر پر سندھ کی قوم پرست، مذہبی اور وفاق پرست جماعتیں سب متفق ہیں اور وہ انفرادی یا اجتماعی طور پر احتجاج کرتی رہی ہیں۔
اس وقت کالا باغ ڈیم اور وسائل کی تقسیم ایسے معاملات ہیں جن سے دوریاں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔
No comments:
Post a Comment